Waseem khan

Add To collaction

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 16

آں چست
از روز میری 
قسط نمبر16


"اسلام و علیکم آنٹی' نانو جان"۔    حمزہ حویلی کی انٹرنس پار کرتے ہال میں پہنچا جہاں نگینہ بیگم اور راضیہ بیگم بیٹھیں تھیں۔
"وعیلکم اسلام بیٹا جیتے رہو"۔    نگینہ بیگم نے خوشدلی سے کہا۔
"حمزہ پہلے تم روز خیر خیریت معلوم کرنے آ جاتے تھے اب جبکہ احد' شہریار اور ہمیں تمھاری زیادہ ضرورت ہے تم منظر عام سے غائب ہی ہو گئے ہو"۔    راضیہ بیگم نے شکوہ کیا۔
"نہیں آنٹی وہ بس تھوڑا مصروف تھا ان دنوں۔ کہیئے کیا حکم ہے میرے لائق؟"۔    حمزہ نے خوش کن لہجے سے وار کیا۔
"بیٹا احد کا اس ہفتے نکاح ہے اور اٹھارہ دن بعد شادی' تمھاری ضرورت تو ہمہ وقت ہوگی ہمیں"۔    راضیہ بیگم کے منہ سے نکلے الفاظ حمزہ کیلیئے حیرت کا سبب بنے۔
"کیا مطلب آنٹی؟ مطلب احد کا نکاح اور شادی دونوں فکس ہو گئے اور مجھے اسنے بتایا تک نہیں"۔   حمزہ ششدر رہ گیا۔
"احد نے تمھیں نہیں بتایا؟"۔    راضیہ بیگم کو تعجب ہوا۔
"نہیں آنٹی احد سے میری اس سلسلے میں کوئی بھی بات نہیں ہوئی"۔     حمزہ نے تفصیل دی۔
"بیٹا ہو سکتا ہے کہ بھول گیا ہو یا کوئی مصروفیت رہی ہو جو تمھیں بتانا بھول گیا ورنہ اسکا تمھارے بنا گزارہ کہاں ہوتا ہے"۔   راضیہ بیگم کے ساتھ نگینہ بیگم بھی ہنس دیں۔
"ہاں آنٹی شاید ایسا ہی ہو ویسے احد ہے کہاں؟؟"۔     حمزہ نے تائید کی۔
"بیٹا اپنے روم میں ہے"۔    راضیہ بیگم نے جواب دیا۔
"ٹھیک ہے میں اسے وہیں جا کے مل لیتا ہوں"۔    بولتے ہی حمزہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"میں راکسٹار احد سمعان بول رہا ہوں میں نے آپکو ایک گیٹار کا آرڈر دیا تھا ایکچوئلی آئی وانٹ ٹو نو دیٹ وین ول یو گو اٹ ٹو می؟؟؟"۔     کنٹیکٹ ہسٹری سے نمبر نکالتے احد نے ڈائل کیا جو چند لمحوں میں ریسیو کر لیا گیا تھا۔
"سر آپکو دس دن تک مل سکتا ہے اس سے پہلے نہیں"۔   دوسری جانب قطعی فیصلہ سنایا گیا۔
"فائن' بائے"۔     احد نے کال کاٹ دی تھی۔
"کعبے کس منہ سے جاو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی"۔    
عقب سے آواز آئی تو احد دروازے کی جانب گھوما۔
"حمزی"۔    
"مت لے میرا نام تو دوست نہیں دشمن ہے میرا' دشمن"۔    حمزہ نے بناوٹی غصے کو طول دی۔
"کیا ہوا ایسا کیوں بول رہا ہے؟؟"۔    فون بیڈ پہ رکھتے احد حمزہ کے قریب آیا۔
"بھولا بھالا انسان ری ایکٹ تو ایسے کر رہا ہے جیسے کچھ خبر ہی نا ہو کہ میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں' میسنا"۔   حمزہ نے مذید چڑ کر کہا۔
"سچ میں حمزی مجھے نہیں معلوم' بتا تو سہی کہ ہوا کیا ہے؟؟"۔    احد نے حیرت انگیز لہجے میں پوچھا۔
"تیری شادی ہو رہی ہے"۔    
"سبحان اللہ یہ تو مجھے پتہ ہے میں سمجھا کوئی اور بات ہے"۔    احد لاپرواہی میں ہنس دیا۔
"ذلیل۔۔۔ خبیث"۔
اب کی بار حمزہ کو شدید غصہ آیا تھا۔ غصیلی آنکھیں احد پہ ٹکائے حمزہ اسے گھوری سے نوازنے لگا۔
"کیا؟؟؟"۔     احد کی ہنسی چھو منتر ہوئی۔
"تجھے پتہ ہے کہ تیری شادی ہو رہی ہے مجھے کس نے آگاہ کرنا تھا؟؟؟"۔    حمزہ نے تپ کر کہا۔
"اوووووووو تو ماجرا یہ ہے۔   دیکھ حمزی میں تجھے بتانے ہی والا تھا"۔    حمزہ نے جھک کر بیڈ سے تکیہ اٹھایا اور احد کی طرف بڑھا۔
"کب جب تیری پہلی اولاد تیرے ہاتھوں میں ہوتی؟"۔   احد اپنے قدم پیچھے کو لینے لگا۔  
"حمزی یار سچ میں' میں تجھے بتانے ہی والا تھا' یقین کر میرا"۔    احد کی تمام تر صفائیاں رائیگاں گئیں۔۔ حمزہ نے تکیہ کا زوردار وار اسکے شانوں پہ کیا پھر اسے بیڈ پہ گرا کے اسکے پیٹ میں مکیاں رسید کیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
حرا وارڈ روب میں شہریار کے کپڑے ترتیب سے سیٹ کر کے رکھ رہی تھی جونہی اسنے شہریار کا کوٹ جھاڑا تعویز جیب سے نکلتا فرش پہ اسکے سامنے آ گرا۔ کوٹ کو سائیڈ پہ رکھتے اسنے جھک کر تعویز اٹھایا بلاوساطت شہریار بھی روم میں داخل ہوا۔
"شہریار یہ تعویز کس لیئے ہے؟ آپکے پاس کہاں سے آیا؟"۔    ہاتھ میں تعویز لیئے حرا شہریار کے قریب آئی۔
"بیٹا یہ تعویز احد کو دے دینا اسے کہنا کہ یہ تعویز اپنے دائیں بازو پہ باندھ لے اور خود سے کبھی دور نا کرے"۔   شریار کے سوچ کی کشتی بیتے دنوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔
"حرا یہ تعویز مجھے پیر عنایت حسین شاہ صاحب نے دیا ہے"۔    شہریار نے تعویز حرا کے ہاتھ سے لیا۔
"پیر عنایت حسین شاہ' یہ کون ہیں؟ اور انہوں نے یہ تعویز آپکو کیوں دیا یے؟"۔    حرا مبہوت شہریار کو دیکھنے لگی۔
"حرا یہ تعویز شاہ صاحب نے احد کےلیئے دیا ہے انہوں نے سختی سے تاکید کی تھی کہ میں احد کو دے دوں اور میں بھول گیا"۔    شہریار نے تاسف سے کہا۔
"کہیں وہ بابا جی شاہ صاحب تو نہیں تھے جو اس دن حویلی کے باہر آئے تھے اگر ایسا ہے پھر تو یہ تعویز احد کیلیئے بہت ضروری ہے"۔    حرا خیال میں ڈوبی۔
"کیا ہوا؟ کیا سوچنے لگی؟؟"۔    شہریار نے حرا کے سامنے چٹکی بجائی۔
"کہیں نہیں آپ یہ تعویز احد کو ابھی دے آئیں"۔    حرا نے جھٹ سے کہا۔
"بعد میں دے دوں گا"۔   شہریار نے لاپرواہی سے کہا۔
"نہیں شہریار آپ احد کو یہ تعویز ابھی دے کر آئیں یا ایسا کریں مجھے دے دیں میں دے آتی ہوں"۔   حرا کی پھرتی پہ شہریار دنگ رہ گیا۔
"نہیں حرا تم سیڑھیاں نہیں چڑھو گی میں ہی دے آتا ہوں"۔    بولتے ہی شہریار روم سے نکل کھڑا ہوا تب حرا نے سکون کا سانس خارج کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد"۔    عجلت میں سیڑھیاں چڑھنے کے سبب شہریار پھولتی سانس میں احد کے روم میں داخل ہوا۔
"جی بھائی"۔    احد جو جھک کر جوتے پہننے میں لگا تھا' بیڈ سے اٹھتے اس طرف آیا۔
"احد یہ تعویز تم اپنے دائیں بازو پہ باندھ لو"۔    بولتے ہی شہریار نے ہاتھ میں پکڑا تعویز احد کی طرف بڑھایا۔
"تعویز مگر کیوں؟؟یہ تعویز آپکو دیا کس نے دیا ہے؟؟"۔    احد نے تعجب سے پوچھا۔
"احد یہ تعویز مجھے شاہ صاحب نے دیا ہے ساتھ ہی  تاکید بھی کی ہے کہ تم اسے خود سے کبھی الگ نا کرو اور ہاں اپنے روم میں ایک قرآن پاک بھی رکھ لو اور جہاں تک ممکن ہو باوضو رہو لیکن احد مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ شاہ صاحب نے تمھارے لیئے یہ سب تاکید کیوں کی ہے؟؟ایسے میں یہ تعویز تمھیں اسکی کیا ضرورت؟؟"۔    شہریار وضاحت دیتے فکر مند سا ہوا۔
"بھائی یہ تعویز آپ مجھے باندھ دیں پلیز"۔    بات کو ٹالتے احد نے بازو شہریار کی طرف بڑھایا۔
"اگر بھائی کو پتہ چلا کہ شاہ صاحب نے ایسا کیوں کہا اور یہ تعویز کس لیئے دیا ہے تو نجانے کیا ہوگا"۔    شہریار جو احد کو تعویز باندھ رہا تھا' کی طرف نظر اٹھائے احد سوچ کے بھنور میں پھنسا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شاہ صاحب کی ہدایت پہ احد نے دائیں بازو پہ تعویز باندھ لیا تھا، روم میں قرآن پاک رکھ لیا تھا اور جہاں تک ممکن ہو وضو میں رہنے لگا تھا۔
ڈنر کے بعد احد روم میں آکر وضو کی غرض سے سیدھا واش روم کی طرف بڑھا۔ کچھ منٹوں کی تاخیر سے باوضو ہوکر بیڈ کی طرف آیا' سائیڈ ٹیبل پہ رکھا فون اٹھا کر ٹانگیں اوپر کو کیں پھر تاج کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
ایک طرف مشائم کی آواز سننے کا دل تھا اور دوسری طرف عامر صاحب کے گھر مہمانوں کی موجودگی اسکی خواہش کی راہ میں روڑے اٹکائے ہوئی تھی۔
بالآخر ہمت کی ٹکڑیوں کو سمیٹتے احد نے مشائم کا نمبر ڈائل کیا جو دوسری رنگ پہ اٹھا لیا گیا تھا۔
"السلام و علیکم"۔    احد نے سنجیدگی سے کہا لیکن جواب میں فقط خاموشی اخذ ہوئی۔
"ہیلو؟"۔   جواب نا ملنے پہ احد نے دوبارہ سے کہا۔
"و علیکم اسلام"۔    کچھ لمحوں کے توقف سے مشائم نے جواب دیا۔
"مشو یار کہاں بزی ہو؟ نا کوئی میسج نا کوئی کال"۔   احد نے بےزارگی ظاہر کی۔
"احد وہ خالہ لوگ آئے ہیں تو انہی کے ساتھ بزی تھی"۔   مشائم نے ہولے سے کہا۔
"مطلب اب میری نا یاد آئے گی نا ہی کال آئے گی نا ہی کوئی میسج۔۔۔ صحیح ہے بھئی کر لو جتنا تنگ کرنا ہے دو چار دن ہی ہیں تمھاری آزادی کے"۔    احد نے مشائم کو چڑانے کی کوشش کی جس میں وہ سرخرو ٹھہرا۔
"کیا مطلب ہے تمھارا؟؟ شادی کے بعد مجھے تمھاری غلامی کرنی پڑے گی۔ جو تم کہو گے وہی ہوگا؟"۔    مشائم نے تپ کر کہا۔
"بالکل آخر بیوی پہ سب سے زیادہ حق اسکے شوہر کا ہوتا ہے اگر شوہر کی بات نہیں ماننی تو پھر کس کی ماننی ہے؟"۔    احد نے ہنسی پہ ضبط پاتے کہا۔
"بہت شوق ہے تمھیں شوہر بننے کا تو پہلے دوست کی طرح بیہیو کیوں کیا؟"۔    مشائم عتاب کا شکار ہوئی۔
"جب رشتہ بدل جائے پیچیدگی تو آ جاتی ہے"۔   احد مستقل اپنی ہنسی پہ ضبط کیئے بیٹھا تھا۔
"مجھے تم سے بحث نہیں کرنی' بائے"۔    طیش میں رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
کال بند ہوتے ہی احد کا قہقہ روم میں گونجا۔
اس دم کھڑکی کے بند دروازے زور سے ہلے جیسے کوئی انہیں توڑ کر اندر آنےکا خواہاں ہو۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد جو بیڈ پہ سونے کی غرض سے لیٹ گیا تھا' کا فون بجا تو اسنے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر دیکھا جہاں انجان نمبر دمک رہا تھا۔
"ہیلو اسلام و علیکم"۔     کال ریسیو کرتے ہی احد نے کہا۔
"وعلیکم السلام"۔    انجان نسوانی آواز احد کی حس سامعہ سے ٹکڑائی جس پہ احد فورا سے اٹھ بیٹھا تھا۔
"احد بھائی میں بات کر رہی ہوں"۔   دوسری جانب اپنائیت سے کہا گیا۔
"میں کون؟ بکری؟"۔   احد نے تعجب سے کہا۔
"نہیں فروا بات کر رہی ہوں"۔    دوسری جانب سے ابھرتی آواز احد کو مسلسل حیرت میں مبتلا کر رہی تھی۔
"فروا؟؟؟ سوری میں نے پہچانا نہیں"۔   کافی سوچ کے بعد احد نے معذرت طلب کی۔
"فروا مشائم کی خالہ زاد"۔     تمام تر سوالات کو حل کرنے کی مکمل کاوش کی گئی۔
"او اچھا جی کہیں آپ نے فون کیا' خیریت؟؟"۔   احد بے چین ہوا۔
"جی جی سب خیریت ہے وہ میں نے آپ سے یہ کہنا تھا کہ مشائم آپ سے ناراض نہیں ہے بلکہ فون کاٹنے کے بعد آپ کی کال کا ہی انتظار کرتی رہی ہے اور آپ کی تصویریں دیکھتی رہی ہے۔ آپ فکر مند نا ہونا میں چشم دید گواہ ہوں اور سچ بول رہی ہوں"۔    دوسری جانب آواز اب قدرے مدھم ہو گئی تھی جیسے کسی سے چھپ کر کال کی گئی ہو۔
احد مسکرا دیا۔
"جی میں پریشان نہیں ہوں' تھینکس"۔    احد نے متبسم انداز میں کہا۔
"ویلکم اوکے بائے اور ہاں مشائم کو بتانا نہیں کہ میں نے کال کی ہے اور یہ سب بتایا ہے' ٹھیک ہے"۔    دوسری جانب تصدیق چاہی گئی۔
"آپ بے فکر رہیں ایسا نہیں ہوگا"۔    احد نے یقین دہانی کرائی۔
"گڈ اوکے بائے"۔     رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
"یہ لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں یا پاگل؟"۔    خود سے ہمکلام اسنے فون سائیڈ پہ رکھا پھر سر کے نیچے ہاتھ رکھتے سیدھا لیٹ گیا تھا۔
"جو بھی ہے محبت پوری چاہ سے کرتی ہیں' جذبہ ایمان کی طرح۔۔ سرشاری سے"۔    احد نے آنکھیں موند لیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد بھائی آپ سے ایک سوال پوچھوں؟"۔    عامر صاحب کے گھر کے لان میں احد، فروا، جبار اور سلیم بیٹھے تھے جبی فروا نے اسے مخاطب کیا۔
جبار، سلیم اور فروا بہن بھائی تھے' مشائم کے خالہ زاد۔ جبار کی عمر اٹھائیس تھی اور سب سے بڑا تھا دوسرا نمبر فروا کا تھا جو مشائم سے سال چھوٹی تھی پھر سلیم کا نمبر تھا جو ابھی ایف اے کا سٹودنٹ تھا۔
"جی پوچھیں؟"۔    احد نے تعظیما کہا۔
"آپ ایک راکسٹار ہیں اس شہر کے جانے مانے گلوکار، ہینڈسم بھی بلا کے ہیں، آپ پہ تو شہر کی حسین سے حسین لڑکی فدا ہوگی پھر آپ نے مشائم کا ہی انتخاب کیوں کیا؟؟"۔    فروا کی ہنسی اور آنکھوں میں شرارت مخفی تھی جسے احد بخوبی جان چکا تھا۔ 
مشائم جو اس دم وہاں پہنچی فروا کا سوال سنتے رک گئی جبکہ احد مشائم پہ چور نگاہ ڈالے فورا سے نظریں پھیر گیا۔
"فروا کیوں میرے زخموں پہ نمک چھڑک رہی ہو۔ کہتے ہیں نا کہ پیار اندھا ہوتا ہے اور پیار کرنے والے اندھیرے کنویں میں کودنے سے پہلے سوچتے نہیں"۔    احد شریر ہوا۔
جبکہ احد کا جواب مشائم کا تن بدن جلا گیا جو احد کا تیر نشانے پہ لگنے کی واضح دلیل تھی۔
"ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا کونسا نکاح ہوا ہے؟ موقع بھی ہے اور دستور بھی' پارٹنر بدل ڈالیں"۔    فروا نے مزید جلی پہ تیل ڈالا۔
آپ حق بجانب ہیں لیکن میں یہ موقع اویل نہیں کرنا چاہتا' میرا صرف ایک ہی دل ہے اور وہ میں پہلے ہی مشو کو دے چکا۔ میری ہر خوشی اور غمی کی پارٹنر صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے مشو"۔    احد نے فریفتگی سے کہا جس پہ مشائم کھڑی اسے دیکھنے لگی۔
"اللہ آپکی محبت اور جوڑی سلامت رکھے"۔   فروا نے کہا۔
"آمین"۔   احد نے پرمسرت انداز میں کہا۔
"مشائم تم وہاں کیوں کھڑی ہو؟ آ کے بیٹھ جاو"۔    جبار نے جونہی نظر اٹھائی مشائم کو کھڑا دیکھ حیرت سے پوچھنے لگا۔
"ہ ہ ہاں وہ کچھ نہیں"۔    مشائم جو منجمد کھڑی احد کے چہرے کو چاہت بھری نگاہ سے چھو رہی تھی' بوکھلا اٹھی۔
"کافی دیر ہو گئی ہے میں اب چلتا ہوں"۔    احد نے نشست چھوڑ دی۔
"میں ابھی آئی ہوں اور تم جا رہے ہو"۔   مشائم نے اسے روکنا چاہا۔
"میں کب سے یہاں آیا بیٹھا ہوں مشو صرف تمھارے لیئے لیکن تم شاید کہیں بزی تھی"۔    احد نے آزمودہ کاری سے کہا۔
"نہیں وہ کچن میں تھی بس"۔    ہاتھ کی انگلیوں سے اٹکیلیاں کرتے مشائم بات کو اڑا گئی۔ "ایم سوری"۔    
"کوئی بات نہیں"۔    احد نے مسکراہٹ اسکی جانب اچکائی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"راضیہ بیگم عامر کی کال آئی تھی کہہ رہا تھا مشائم کے امریکہ والے ماموں ٹکٹس کی عدم دستیابی کی بنا پہ پاکستان ابھی نہیں آ سکتے۔ اس وجہ سے نکاح شادی والے دن ہی کرنا ہوگا"۔    راضیہ بیگم کچن میں کام کرنے میں لگی تھیں جب سمعان صاحب کچن میں داخل ہو کر کہنے لگے۔
'چلیں اگر وقت کا تقاضہ یہی ہو تو پھر میں کیا کہہ سکتی ہوں؟"۔   راضیہ بیگم نے شانے اچکائے۔
احد جو اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا' کی سماعتوں میں راضیہ بیگم کے الفاظ دوڑے تو وہ کچن کی طرف آیا۔
"کیا ہوا ماما' پاپا سب خیریت ہے؟؟"۔   
"ہاں بیٹا سب خیریت ہے وہ دراصل مشائم کے امریکہ والے ماموں کو ٹکٹ نہیں مل رہا ممکن ہے وہ شادی پہ پہنچیں اس وجہ سے نکاح شادی والے دن ہی ہوگا"۔    سمعان صاحب نے احد کی طرف متوجہ ہوئے۔
"شادی والے دن نکاح"۔    احد نے مرجھائے ہوئے لہجے میں الفاظ دہرائے۔
"بیٹا اب مجبوری ہے اس وجہ سے تاریخ آگے کرنی پڑ رہی ہے"۔    سمعان صاحب نے اسکے شانوں پہ ہاتھ جماتے کہا۔
"جی ٹھیک ہے پاپا جیسے آپ لوگوں کو بہتر لگے"۔    تائید کرتے ہی احد جبرا مسکرا دیا۔
"خوش رہو"۔   سمعان صاحب کچن سے نکل گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد مجھے لگتا ہے کہ صباء نصیب ہماری خواہشات کے بالکل متضاد چل رہی ہے جب بھی ملاپ کی بات ہو کوئی نا کوئی اشو کریٹ ہو جاتا ہے"۔    فون کان کے ساتھ لگائے مشائم اپنے روم کے ساتھ منسلکہ چھوٹے ٹیرس میں کھڑی تھی۔ ہوا کے ہلکے جھکولے اسکی لٹوں سے اٹکیلیاں کرتے' لٹوں کو اسکے مکھڑے تک لا رہے تھے جن کے باعث اسکا چہرہ معصوم کلی کی مانند لگ رہا تھا۔
"مشو منفی خیالات اپنے ذہن سے نکال دو پلیز' انشاءاللہ سب ٹھیک ہوگا۔ اس میں ضرور کوئی مصلحت ہوگی"۔    احد نے مشائم کا ہزار وسوسوں سے اٹا ذہن پرسکون کرتے دلاسہ دیا۔  "جہاں اتنے دن انتظار کیا ہے کچھ دن اور صحیح"۔    
"کہہ تو تم بالکل ٹھیک رہے ہو لیکن۔۔"۔    مشائم کا ذہن ہنوز پراسرار خیالات کی دھکم پیل کی آڑ میں بوجھل تھا۔
"مشو کچھ نہیں ہوگا تم بس اچھا اچھا سوچو' ہمم"۔   احد نے اسے مطمئن کرتے کہا۔
"احد تم کبھی مجھ سے دور تو نہیں۔۔۔"۔    مشائم کے منہ سے بےساختہ نکلا۔
"کبھی نہیں تم نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا مشائم؟ میں دس ہزار بار تمھیں آگاہ کر چکا ہوں مگر جیسے تمھیں مجھ پہ اعتقاد نہیں"۔    احد نے خفگی سے آواز قدرے بلند کی۔
"نہیں احد ایسی بات نہیں مجھے تم پہ پورا بھروسہ ہے مگر پتہ نہیں کیوں میرا دل بہت بے چین ہے جیسے کچھ برا ہونے والا ہے"۔   مشائم کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
"پلیز مشو اللہ پہ توکل کرو"۔    نا چاہتے ہوئے بھی احد نے ہمت جیسے جواب دینے لگی تھی۔ 
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 Comments